Monday, June 1, 2020

FB Gems Sufiyana 1


*حقیقت یہ ھے جب تم اللہ کے کلام کی مخصوص آیت کو سمجھ لیتے ھو یا اس کےرازواسرار سے واقف ھو جاتے ھو تو تم اس وقت تم نہیں رھتے بلکہ " ھم " ھو جاتے ھو ۔ اور جس نے ھم تم کے رازواسرار کو جان لیا تو وہ میں نہیں رھتا بلکہ ھم کے دائرہ میں چلا جاتاھے اور زات اس کا وجود استعمال کرتا ھے۔ اس کا بولنا اس کا لکھنا سب زات کی طرف سے ھوتا ھے۔

*" بیعت بھی عجیب چیز ہے"

حضرت مُعینُ الدّین چشتی اجمیری قدس سرہ العزیز کی عادتِ مُبارکہ تھی کہ ہمسائے کے ہر جنازے پر پہنچتے تھے۔اکثر اوقات میّت کے ساتھ قبر پر بھی تشریف لے جاتے اور تدفِین کے بعد جب لوگ چلے جاتے تو پِھر بھی کچھ وقت کے لیے آپ رحمتہ اللّٰه علیہ قبر پر بیٹھے رہتے۔
ایک دن حضرت خواجہ ہارونی رحمتہ اللّٰه علیہ کا ایک مُریِد فوت ہو گیا۔خواجہ مُعینُ الدّین رحمتہ اللّٰه علیہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے بعد حسبِ عادت اس قبر پر بیٹھے رہے اور مراقبہ فرمایا۔حضرت خواجہ قُطب الدّین بختیار کاکی رحمتہ اللّٰه علیہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔اچانک حضرت مُعینُ الدّین رحمتہ اللّٰه علیہ دہشت کے عالم میں اپنی جگہ سے گھبرا کر اُٹھے اور آپ رحمتہ اللّٰه علیہ کے چہرۂ مُبارک کا رنگ متغیر تھا۔کچھ وقت کے بعد آپ رحمتہ اللّٰه علیہ کی طبیعت بحال ہوئی تو آپ رحمتہ اللّٰه علیہ نے فرمایا:
'' بیعت بھی عجیب چیز ہے۔ ''
حضرت خواجہ قُطب الدّین بختیار کاکی نے عرض کی کہ:
'' میں نے عجیب کیفیت دیکھی ہے۔پہلے آپ کا رنگ متغیر ہو گیا تھا اور پِھر کچھ وقت کے بعد بحال ہو گیا تھا اس کی کیا وجہ تھی؟ ''
فرمایا:
'' جب لوگ اس میّت کو دفن کر کے چلے گئے تو اسے عذاب دینے کے لیے دو فرشتے آئے۔وہ اسے عذاب دینا چاہتے تھے کہ حضرت عثمان ہارونی ( رحمتہ اللّٰه علیہ ) کی صُورت سامنے آ گئی۔آپ ہاتھ میں عصا لیے ہوئے تھے۔آپ نے فرمایا اے فرشتو! یہ ہمارے مُریِدوں میں سے ہے اسے عذاب نہ دو۔فرشتوں نے کہا! آپ کا یہ مُریِد آپ کے طریقے پر نہ چلتا تھا۔آپ نے فرمایا! اگرچہ یہ میرے طریقے کے خلاف چلتا تھا،لیکن اس نے اپنا ہاتھ فقیر کے دامن میں ڈالا ہُوا ہے۔غیب سے حُکم ہُوا اے فرشتو! اسے چھوڑ دو ہم نے اس کے پِیر کے طفیل اس کے گناہ بخش دیے۔طریقت کی بیعت ایسے کٹھن مرحلے میں کام آتی ہے۔ ''

( مرآت العاشقین،صفحہ ۲۲۱،۲۲۲ )
copy......

*" بیعت بھی عجیب چیز ہے"

حضرت مُعینُ الدّین چشتی اجمیری قدس سرہ العزیز کی عادتِ مُبارکہ تھی کہ ہمسائے کے ہر جنازے پر پہنچتے تھے۔اکثر اوقات میّت کے ساتھ قبر پر بھی تشریف لے جاتے اور تدفِین کے بعد جب لوگ چلے جاتے تو پِھر بھی کچھ وقت کے لیے آپ رحمتہ اللّٰه علیہ قبر پر بیٹھے رہتے۔
ایک دن حضرت خواجہ ہارونی رحمتہ اللّٰه علیہ کا ایک مُریِد فوت ہو گیا۔خواجہ مُعینُ الدّین رحمتہ اللّٰه علیہ نمازِ جنازہ پڑھنے کے بعد حسبِ عادت اس قبر پر بیٹھے رہے اور مراقبہ فرمایا۔حضرت خواجہ قُطب الدّین بختیار کاکی رحمتہ اللّٰه علیہ بھی ان کے ہمراہ تھے۔اچانک حضرت مُعینُ الدّین رحمتہ اللّٰه علیہ دہشت کے عالم میں اپنی جگہ سے گھبرا کر اُٹھے اور آپ رحمتہ اللّٰه علیہ کے چہرۂ مُبارک کا رنگ متغیر تھا۔کچھ وقت کے بعد آپ رحمتہ اللّٰه علیہ کی طبیعت بحال ہوئی تو آپ رحمتہ اللّٰه علیہ نے فرمایا:
'' بیعت بھی عجیب چیز ہے۔ ''
حضرت خواجہ قُطب الدّین بختیار کاکی نے عرض کی کہ:
'' میں نے عجیب کیفیت دیکھی ہے۔پہلے آپ کا رنگ متغیر ہو گیا تھا اور پِھر کچھ وقت کے بعد بحال ہو گیا تھا اس کی کیا وجہ تھی؟ ''
فرمایا:
'' جب لوگ اس میّت کو دفن کر کے چلے گئے تو اسے عذاب دینے کے لیے دو فرشتے آئے۔وہ اسے عذاب دینا چاہتے تھے کہ حضرت عثمان ہارونی ( رحمتہ اللّٰه علیہ ) کی صُورت سامنے آ گئی۔آپ ہاتھ میں عصا لیے ہوئے تھے۔آپ نے فرمایا اے فرشتو! یہ ہمارے مُریِدوں میں سے ہے اسے عذاب نہ دو۔فرشتوں نے کہا! آپ کا یہ مُریِد آپ کے طریقے پر نہ چلتا تھا۔آپ نے فرمایا! اگرچہ یہ میرے طریقے کے خلاف چلتا تھا،لیکن اس نے اپنا ہاتھ فقیر کے دامن میں ڈالا ہُوا ہے۔غیب سے حُکم ہُوا اے فرشتو! اسے چھوڑ دو ہم نے اس کے پِیر کے طفیل اس کے گناہ بخش دیے۔طریقت کی بیعت ایسے کٹھن مرحلے میں کام آتی ہے۔ ''

( مرآت العاشقین،صفحہ ۲۲۱،۲۲۲ )
copy......
*Masha Allah. Hum jaisa bhi hon Allah humko pyar se dekhta hai. Sattar maaun se zyada pyar se...Iss ummeed se ke hum har roz behtar zindagi guzarein...taki Uss se mulaqaat ho tao behtar halaat mei ho. Woh dekhta hai...yeh khushi ki baat hai...ke har waqt dekhta rahey...uske liye jo bhi achhe kaam ho uss mei mashghool rakhey Allah. Aameen.
*Jab Kabhi Talkhi -e- Halaat Se Ghabrata hu’n
Inki Aawaaz Ye Aaati hai Main Aata hu’n

ALLAH KAREEM AAQA SALLALLAHO ALAIHIWASALLAM K SADQE TAJ UL MASHAIKH ka saya e Shafquat hum Ghulamo per salamat rakhkhe.
*ماشاءاللہ بہت خوبصورت واقعہ ہے سن کر لازمی شئیر کریں...جزاک اللہ

بادشاہ شاہجہان نے دہلی میں مسجد بنوائی  تو اس کا مہراب ٹیھڑا تھا 
تاریخ کے اندر یہ بات موجود ہے  اس کا مہراب ٹیھڑا بنا تھا کاریگروں سے
شاہجہان بادشاہ کے کہنے پر  جس استاد کے نقشے پر دہلی مسجد بنی تھی
وہ اپنا نقشہ لے کر میاں چنوں کے قریب  عبدالحکیم شہر 
حضرت عبدالحکیم رحمتہ اللہ کے پاس ایا  تو آپ دھوبی کا کام کرتے تھے
آپ کے پاس چند.......باقی سنیے گا ........اس خوبصورت واقعہ میں...
صاحبزادہ پیر سید احمد محمد شاہ صاحب کے وجدانی خطاب میں....
اور لازمی شئیر کریں...جزاک اللہ.خیر.
آج لوگ ہم کو کہتے ہیں کہ اللہ کا ولی کیا کر سکتا......
یہ پیغام ان تک ضرور پہنچا دیں...جزاک اللہ
*(تختاالثر'ى) 
داسې وائې د عباس ځوئ عبدالله
چه ثر'ى ده د ېو شين كانړې نامه
                                 د ثر'ى  لاندې دوزخ  كړو رب تيار
                                 بيا ملك ئې د ده جوړ كړلو واكدار
دې نه  پس  كړلې  پيدا رب العزت
پوره نورلس فرشتې په خپل قدرت
                                هر  يوې  له  ښى طرف  ته  برادره
                                دى لاسونه رب جوړ كړى اوويا زره
ګس طرف ته ئې هم دومره دى لاسونه
د  حكمت  ډك  دى  د رب  واړه  كارونه
                             بيا په هر لاس كښي اوويا زره تلى دى
                            هر  تلى    كښې   اوويا  زره  ګوتې دې۔
هره   ګوته    باندې   يو  يو   هيبتناكه
اژدها    ناسته    ده   ډيره    خطرناكه
                           بيا   د   هرې  اژدها    په  سر    يو  مار
                           ناست دې د  كړې  د  دوزخيانو   انتظار
دومره  اوږد  دې دا مار  د   زړګى سره
لکه   لار   اوږده    كلونه    اوويا   زره۔
                           بيا  د  هر مار په سر  ناست دې يو لړم۔
                           چه  دارو   ئې چرته   شته نه  لرى  دم۔
د ده  يو ټك  دومره   ډك  دې  د  فساد۔
اوويا    زره   كاله   كړى   سړې   فرياد.
                           رب دې اوساتى مونږ  ټول  له دې عذاب۔
                           دا    دعا    دې    شى    قبوله   د  ناياب۔ 
      (قصص الا نبياء اردو۔ مصنف عبدالمنان صفه نمبر۔11)



*آاِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ:  (سورہ النحل ایت 128) یقینا اللہ اہل ِتقویٰ اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ اور جو لوگ خلوص دل سے نیک کام کرنے والے ہوتے ہیں۔

*#کلام_حضرت_امیر_خسرو_رح (ترجمہ)

چھاپ تلک سب چھین لی ری موسے نیناں مِلائی کے،

اپنی سی رنگ لی موسے نیناں مِلائی کے،

حضرت امیر خسرو رَحْ فرماتے ہیں کہ میری شناخت ہی مجھ سے چھین لی مجھ سے نظریں ملا کے یعنی میری صورت ہی مجھ سے چھین لی نظریں ملا کے.
اور عشقِ مجاذی کی صورت میں عشقِ حقیقی مجھ میں سما گیا اور میری صورت پے مجھے اپنے محبوب کی صورت نظر آنے لگی 

پریم بھٹی کا مدھوا پلائی کے،
متوالی کر لی نی موسے نیناں مِلائی کے،

اور ایک خاص بات کے جو نبی کریم ﷺ سے سینہ بسینہ حوضِ کوثر تمام اولیا اللہ کو ملتا ہے حضرت امیر خسروؒ کہتے ہیں میرے مرشد نے مجھے بھی وہ جام پلایا اپنی نظروں سے 

خسرو نظام کے بل بل جاؤں،
موہے سہاگن کی نی رے موسے نیناں ملائی کے۔۔۔

 حضرت امیر خسرو رَحْمَۃُ للہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہتے ہیں کے میں اپنے مرشد کے قربان جاٶں کہ مجھے عشقِ مجاذی کی صورت میں  عشقِ حقیقی مجھے اپنے وجود میں ہر وقت محسوس ہوتا ہے اور اس کیفیت کو وہ سہاگن کہہ رہے ہیں کہ جس سہاگن کا سہاگ ہر وقت اُس کے ساتھ ساتھ ہو 

حضرت امیر خسرو رَحْمَۃُ للہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
*#کلام_حضرت_امیر_خسرو_رح (ترجمہ)

چھاپ تلک سب چھین لی ری موسے نیناں مِلائی کے،

اپنی سی رنگ لی موسے نیناں مِلائی کے،

حضرت امیر خسرو رَحْ فرماتے ہیں کہ میری شناخت ہی مجھ سے چھین لی مجھ سے نظریں ملا کے یعنی میری صورت ہی مجھ سے چھین لی نظریں ملا کے.
اور عشقِ مجاذی کی صورت میں عشقِ حقیقی مجھ میں سما گیا اور میری صورت پے مجھے اپنے محبوب کی صورت نظر آنے لگی 

پریم بھٹی کا مدھوا پلائی کے،
متوالی کر لی نی موسے نیناں مِلائی کے،

اور ایک خاص بات کے جو نبی کریم ﷺ سے سینہ بسینہ حوضِ کوثر تمام اولیا اللہ کو ملتا ہے حضرت امیر خسروؒ کہتے ہیں میرے مرشد نے مجھے بھی وہ جام پلایا اپنی نظروں سے 

خسرو نظام کے بل بل جاؤں،
موہے سہاگن کی نی رے موسے نیناں ملائی کے۔۔۔

 حضرت امیر خسرو رَحْمَۃُ للہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کہتے ہیں کے میں اپنے مرشد کے قربان جاٶں کہ مجھے عشقِ مجاذی کی صورت میں  عشقِ حقیقی مجھے اپنے وجود میں ہر وقت محسوس ہوتا ہے اور اس کیفیت کو وہ سہاگن کہہ رہے ہیں کہ جس سہاگن کا سہاگ ہر وقت اُس کے ساتھ ساتھ ہو 

حضرت امیر خسرو رَحْمَۃُ للہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
*جنید بغدادی کے بے شمار ملفوظات اولیاء کرام نے محفوظ کرکے ہم تک پہنچائے ہیں جن میں علم و حکمت اورفراست ایمانی کے موتی پنہاں ہیں،امام ابو نعیم اصفہانیؒ نے حلیۃ الاولیاء کی دسویں جلد میں آپ کا مفصل ذکر کیا ہے اورآپ کے بے شمار قیمتی اورپر اثر ملفوظات ذکر فرمائے ہیں، جن میں کچھ یہاں ذکر کئے جاتے ہیں:
۱۔ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ وہ اپنی کوشش سے اللہ تعالی تک پہنچ جائے گا،وہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو مشقت میں ڈال رہا ہے،جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ بغیر محنت اورکوشش کے اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائے گا،وہ خواہ مخواہ آرزوئیں باندھ رہا ہے۔
مطلب یہ ہے کہ بے عملی کے ساتھ آرزوئیں لگانا بھی غلط ہے اور محنت وکوشش کرکے اس پر ناز کرنا بھی غلط ہے،صحیح راستہ یہ ہے کہ کوشش میں لگارہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل اوررحمت کا طلب گار ہو؛کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم ورحمت ہی سے وصول الی اللہ ہوتا ہے۔
۲۔ جب تک تم اپنے گناہوں سے خائف ہو اور اگر کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر ندامت محسوس کرتے ہو،اس وقت تک اپنے آپ سے مایوس نہ ہو۔
۳۔ آپ کے شیخ حضرت سری سقطیؒ نے آپ سے پوچھا ‘‘شکر کی حقیقت کیا ہے؟’’ آپ نے جواب دیا:
(الایستعان بشی ء من نعمہ علی معاصیہ)
“شکر یہ ہے کہ اللہ تعالی کی کسی نعمت کو اس کی معصیتوں میں استعمال نہ کیا جائے’”
حضرت سری ؒ نے اس جواب کو بے حد پسند فرمایا:
۴۔ جو شخص حافظ قرآن نہ ہو،اس نے کتابت احادیث کا مشغلہ نہ رکھا ہو اورعلم فقہ حاصل نہ کیا ہو،وہ اقتداء کے قابل نہیں۔
۵۔ جب تک کوئی بری بات انسان کی طبیعت (دل) میں رہے،اس وقت تک وہ کوئی عیب نہیں، ہاں جب وہ طبیعت کی اس بات پر عمل کرنے لگے تو یہ عیب کی بات ہے۔
یہی بات حضرت تھانویؒ کے مواعظ میں ملتی ہے کہ جب تک رزائل کے مقتضا پر عمل نہ کیا جائے، اس وقت تک وہ رزائل مضر نہیں ہوتے۔
۶۔ مجھے دنیا میں پیش آنے والا کوئی واقعہ ناگوار نہیں ،اس لئے کہ میں نے یہ اصول دل میں طے کر رکھا ہے کہ یہ دنیا رنج و غم، بلاء اورفتنہ کا گھر ہے،لہذا اس کو تو میرے پاس برائی ہی لے کر آنا چاہیے،لہذا اگر کبھی وہ کوئی پسندیدہ بات لے کر آئے تو یہ اللہ تعالی کا فضل ہے ورنہ اصل وہی پہلی بات ہے۔
۷۔ ایک مرتبہ کسی نے آپ سے سوال کیا‘‘دنیا (جس سےپرہیز کی تاکید کی جاتی ہے) کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:
(مادنا من القلب،وشغل عن اللہ)
“جو دل کے قریب آجائے اوراللہ تعالی سے غافل کردے”
۸۔ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا:
(متی تصیر النفس داء ھا دواءھا)
“ایسا کب ہوتا ہے کہ نفس کے امراض خود اس نفس کا علاج بن جائیں ؟”
آپ نے برجستہ جواب دیا:
(اذا خالفت ھواء ھا صار داء ھادواءھا)
“جب تم نفس کی مخالفت کرو تو اس کی بیماری ہی اس کا علاج بن جاتی ہے”
(حلیۃ الاولیاء:۱۰/۲۵۵،۲۷۴،ملخصاً)
۹۔ میں اگر ہزار سال بھی زندہ رہوں تو اپنے اختیار سے طاعات وعبادات میں سے ایک ذرہ بھی کم نہ کروں، ہاں مغلوب ومجبور ہوجاؤں تو دوسری بات ہے۔
(ثمرات الاوراق،ص:۷۸،کتاب الاعتصام:۱/۱۰۹)
۱۰۔ وصول الی اللہ کے جتنے راستے عقلاً ہوسکتے ہیں وہ سب کے سب بجز اتباع سنت کے مخلوق پر بند کردیئے گئے ہیں (یعنی بغیر اقتداء رسول ﷺ کے کوئی شخص ہرگز تقرب حاصل نہیں کرسکتا)اورجودعوی کرے وہ کاذب ہے۔
(ثمرات الاوراق،ص:۷۸،کتاب الاعتصام:۱/۱۱۰)
۱۱۔ حضرت جنید بغدادیؒ سے توحید کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ موحد کا وحدانیت کی حقیقت اورکمال احدیت کے ساتھ اس بات کو جاننا کہ وہ ذات باری تعالیٰ واحد ویکتا ہے، نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ جنا گیا، اس کا نہ تو کوئی مد مقابل ہے نہ نظیر نہ تو اس کی صورت بیان ہوسکتی ہے، نہ تشبیہ، نہ کیفیت، نہ تمثیل۔
(الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲)
۱۲۔ تمام مخلوق کے لئے اللہ تک پہنچنے کے راستے بند ہیں، ماسوائے ان لوگوں کے جو رسول اللہﷺکے نقش قدم پر چلیں۔
(الرسالۃ القشیریۃ،ص:۴۴)
۱۳۔ جن چیزوں سے تمہارا ہاتھ خالی ہے، ان سے دل کے خالی ہونے کا نام زہد ہے۔
۱۴۔ دنیا کو حقیر جاننے اوراس کے آثار کو دل سے محو کردینے کا نام زہد ہے۔
(الرسالۃ القشیریۃ،ص:۱۶۲)
۱۵۔ صدق کی حقیقت یہ ہے کہ تو ان مواقع پر بھی سچ بولے جن میں جھوٹ کے بغیر تمہاری نجات نہیں ہوسکتی۔
(الرسالۃ القشیریۃ،ص:۲۹۵)
۱۶۔ ہر وہ محبت جو کسی غرض کے لئے ہے،جب وہ غرض جاتی رہے گی تو محبت بھی جاتی رہے گی۔
(الرسالۃ القشیریۃ،ص:۴۵۱)
*اسلام وعلیکم 
ایک عـادت انسان کو بہـت سا اندرونی حـوصلہ بخشتی ہے وہ ہے اللہ کے ہاں ہمیشہ نیک گمان رہنا۔۔ کـڑے امتحانوں سے گـزرنا، ٹمٹنا، بکھـرنا اور اس کے باوجود ہـر مـرتبـہ نیلگوں آسمـان کی وسعـتوں میـں پھـر اسی سے رجـوع کـرنا۔۔پھر گڑگڑا کر دعا کرنا اسی رب سے مانگنا  اس ایمـان کے ساتھ کہ جس نے امتحان کیلئے منتخب کیا ہے اس میـں سے پار گـزرنے کا حوصلہ بھی وہی عـطا فـرماتا ہے۔۔⚘
کبھی بھی ان آیات کی تلاوت کرنا نہ چھوڑے
جو رب تعالیٰ نے
القرآن سورہ العمران میں نازل کی.. 
اے ہمارے رب جب تو ہم کو ہدایت کر چکا تو ہمارے دلوں کو نہ پھیر اور اپنے ہاں سے ہمیں رحمت عطاء فرما
بیشک تو بہت زیادہ دینے والا ہے. (العمران 3:8)
علی درویش
*اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
صبح بخیر

تیرے پرردگار نے نہ تجھے چھوڑا__
نہ تجھ سے بیزار ہوا__
القرآن
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو  اور تفرقہ میں نہ پڑھو 
اللہ کی رسی اہل بیعت  اہل حق اولیائے کرام  اور صوفیائے کرام  ھوتے ہیں  یہ جانشیں  رسول اور ناطق قران ھوتے ہیں  رب  تعالی جو کائنات مین نہیں  سما سکتا ۔۔۔ لیکن ان کے دلوں  کو اپنا گھر بناتا ھے 
 یہ اللہ کا راستہ بھی ھوتے ہیں  اور صراط مستقیم کا
راستہ بھی ان کے دروازے پر ملتا ھے 
جن کو پکڑنے والا حق کا سچا پیروکار ھوتا ھے  اور یہی گروہ ان لوگوں  کا ھے جو شاہ رگ سے نزدیک بسنے والے رب کو تلاش کرتے ہیں  ۔۔۔ جو راتوں  کے۔پچھلے پہر اس کے دروازے پر حاضر رھتے ہیں ۔۔۔ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم  کی محبت سے سرشار رھتے ہیں 
اس سے محبت اور اخلاص کا رشتہ  استوار کرتے ہیں  
اس کی مخلوق پر مہربان  ھوتے ہیں ۔۔۔ 
اس سے ڈرتے ہیں  اس کے احکام۔کی خلوص دل سے پیروی کر تے ہیں  ہہ گروہ مو منیں ھوتے ہیں
*سیدنا ابوطالب۴ 
چہرہ مصطفیٰ ﷺ کے 
وسیلے سے بارش طلب کیا کرتے تھے
*حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنے اُستاد حضرت عبدالله بن حارث محاسبیؒ سے دریافت کیا کہ علم اور عمل میں فضیلت کس کو ہے؟ 
آپؒ نے جواب دیا : علم کو یعنی علم عمل سے فائق ہے ۔
" حضرت جنید ؒ نے حیرت زدە ہو کر اس کی وضاحت چاہی تو آپؒ نے کہا "ہم علم سے خدا کو پہچان سکتے ہیں مگر عمل سے اس کو پا نہیں سکتے ، عمل بندے کی صفت ہے اور علم خدا کی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا" گھڑی بھر کا تفکر ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے" گویا دل کے اعمال اعضاٴ کے اعمال سے بہتر ہیں ۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ عالم کی نیند عبادت ہے اور جاہل کی بیداری گناە ہوتی ہے ۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے سوال کیا وە کیسے؟ 
حضرت حارث  محاسبیؒ نے جواب دیا خواب ہو یا بیداری ، عالم کا دل تو مغلوب ہوتا ہے اور جب دل مغلوب ،ہو تو جسم بھی مغلوب ہو جاتا ہے ،لہذا غلبہِ حق سے مغلوب دل مجاہدے کے باعث حرکاتِ ظاہر پر غلبہِ نفس کی نسبت بہتر ہے۔
*سات سال کے بچے کو پیار سے نماز(حقیقت) کی طرف لاؤ دس سال کے بچے کو مار کےنماز(حقیقت) کی طرف لاؤ مطلب اگر معاشرے کو شعور کی طرف لانا ھے تو بچوں سے شروعات کرو بچے بچوں سے جلد سیکھ جاتے ہیں
*سوال,عقیدہ ختم نبوت کا مطلب کیا ہے ؟
جواب,اللہ رب العزت نے سلسلہ نبوت کی ابتداء سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائ اور اس کی انتہاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر فرمائ حضور علیہ السلام آخر الانبیاء ہیں أپ علیہ السلام کے بعد کسی کو نبی نہیں بنایا جائیگا اس عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں           "عقیدہ ختم نبوت "کہا جاتا ہے-
"عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت"
1,الحمدللہ عقیدہ ختم نبوت قران مجید کی سو 100 آیات کریمہ اور تقریبا 200 احادیث متواترہ سے ثابت ہے-
2,انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا سب سے پہلا اجماع مسئلہ عقیدہ ختم نبوت پر منعقد ہوا-
چنانچہ امام العصر حضرت مولان سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اپنی آخری کتاب "خاتم النبیین"میں تحریر فرماتے ہیں:
اس امت کا سب سے پہلا اجماع مسیلمہ کذاب کے قتل پر منعقد ہوا جس کا سبب صرف اس کا دعوی نبوت تھا-
.....عقیدہ ختم ننوت کے اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ ودفاع کے لیے جتنی جنگیں لڑی گئیں ان میں شہید ہونے والے صحابہ اکرام کی کل تعداد 259ہے.
اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے اسلام کی تاریخ میں سب سے پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبر رض کے دور خلافت میں (مسیلمہ کذاب )کے خلاف لڑی گئ اس ایک جنگ میں 1200 صحابہ اکرام نے شہادت نوش فرمائیں تقریبا 700صحابہ اکرام ان میں حافظ قران و علماء تھے-
نوٹ: ان تمام باتوں سے "عقیددہ ختم نبوت" کی اہمیت کا  اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جن حضرات کے لیے قران کبھی الائك ھم المفلحون(یہی لوگ کامیاب ہیں) کبھی رضی اللہ عنہ ورضوا عنہ( اللہ ان سے راضی وہ اللہ سے راضی)
باوجود ان فضائل کے جب بات عقیدہ ختم نبوت کی آئ تو مخالفین کے سامنے اپنی جانیں نچاور کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت کرتے ہوئے نظر أتے ہیں-
اور رہی بات ہم جیسے گنہگاروں کی ان کے لئے اپنے اپ کو بخشوانے اور قافلہ صدیق اکبر رض میں شامل ہونے کے لیے ایک انوکہ موقع ہے مطلب ختم نبوت کے لیے ہم ہر آن ہر لمحہ خدمت کے لیے پیش پیش ہو .....
جزاک اللہ-
لازمی شئیر کریں⁦❤️⁩🥀
*❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
انسان خود عظیم نہیں ہوتا
اسکا کردار عظیم ہوتا ہے

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
*".. ﻣﻌﺮﻓﺖ .."

" ﻭﺍﻟﻌﺼﺮ ﺍﻥ ﺍﻻﻧﺴﺎﻥ ﻟﻔﯽ ﺧﺴﺮ "

"ﻗﺴﻢ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮐﯽ.! ﺗﺤﻘﯿﻖ کہ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ۔"

ﻣُﺮﯾﺪ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ مُرﺷﺪ فقیر ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ "ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﻣﮕﺮ وہ ﻟﻮﮒ جو ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ۔ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺲ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﺲ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﻻﻧﺎ ﮬﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﯾﺎ ﺟﺎﭼﮑﺎ ﮬﮯ۔"

ﻓﻘﯿﺮ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ "ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺗُﻮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﻨﺘﺎ ﮬﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮬﮯ۔؟" ﺳﺎﺋﻞ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮬﻮﺍ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮬﮯ۔ ﻓﻘﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ "تُو ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﯿﻮﮞ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ، ﺗُﻮ ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﺑﮭﯽ ﻣﺘﻘﯽ، ﭘﺮﮬﯿﺰﮔﺎﺭ، ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮔﺰﺍﺭ، ﺑﻦ ﺟﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﮬﮯ ﮔﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮬﯽ، ﺍﻭﺭ ﺁﯾﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ تُو ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮬﻮ ﮐﺮ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ تُو "ﻟﻘﺪ ﺧﻠﻘﻨﺎﻻﻧﺴﺎﻥ ﻓﯽ ﺍﺣﺴﻦ ﺗﻘﻮﯾﻢ" ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗُﻮ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮬﺮ ﻧﮑﻞ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﺣﺴﻦ ﺗﻘﻮﯾﻢ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮬﮯ، ﺟﺲ ﭘﺮ اللّٰہ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺧﻠﻖ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ، ﮐﯿﺎ ﺗُﻮ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ "ﺍللہ پاک ہر ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﭽّﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﭘﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺳﺮﭘﺮﺳﺖ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻋﻘﺎﺋﺪ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯿﮟ" ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﯾﺎ ﮐﺎﻓﺮ ﯾﺎ ﻣﺠﻮﺳﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﺍﺣﺴﻦ ﺗﻘﻮﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﻓﻄﺮﺕ ﯾﮧ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺗُﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ، ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺁﺩﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺻﻔﺖ ﺍﻭﺭ ﺻﻮﺭﺕ ﭘﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﺎ ﮬﮯ۔ "ﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ ﺧﻠﻖ ﺁﺩﻡ ﻋﻠٰﯽ ﺻﻮﺭﺗﮧ" ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺧﻠﻖ ﮐﯿﺎ ﺁﺩﻡ ﺍﻭﭘﺮ ﺻﻮﺭﺕِ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺮ" تُو ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮬﻮ ﮔﺎﺟﺐ تُو ﺍِﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔"

ﻣﺮﯾﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﻮ "ﻭﺗﻮﺍﺻﻮاﺑﻠﺤﻖ" ﺍﻭﺭ "ﻭﺗﻮﺻﻮﺍﺑﺎﻟﺼﺒﺮ" ﮬﮯ ﺍس کا ﮐﯿﺎ ﻣﻔﮭﻮﻡ ﮬﮯ۔؟"

ﻓﻘﯿﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ "ﯾﮩﯽ ﺗﻮ ﺁﯾﺖ ﮐﯽ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ تُو ﺍِﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﺮ ﻟﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ تُو ﺻﻔﺖِ الہٰی ﮐﺎ ﻣﻈﮩﺮ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ﮬﮯ، ﺗﻮ تُو ﺍﻭﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﺧﺴﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ، ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﺍِﺱ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﺍﻭﺭ ﺣﻖ ﮐﺎ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ، ﺟﻮ ﺗﺠﮫ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﯽ۔ ﺍِﺱ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ تُو ﺻﺮﻑ ﺍُﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮬﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﻔﺖ ﻭ ﺷﻨﯿﺪ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﺟﯿﺴﺎ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮬﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﮬﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﺳﯿﮑﮭﻮ ﮔﮯ، ﺳﻤﺠﮭﻮ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺟﮯ ﮐﻮ ﻋﻤﺪﮦ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺳﻮﺍ ﺍِﺱ ﻣﻌﺮﻓﺖ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ھے ﺍﻭﺭ ﯾﮩﯽ ﺻﺒﺮ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺍِﺱ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ اور اُس ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ 
ﻻﻧﮯ والا ﺷﺎﺯ ﻭ ﻧﺎﺩﺭ ﮬﯽ ﺗﻤﮭﯿﮟ ﻣﯿﺴّﺮ ﮬﻮ ﮔﺎ۔"
*مرید نے مرشد کو اچھے موڈ میں دیکھا تو با ادب ھو کر گویا ھوا !
میرے مرشد مجھے عرقِ حیات کے متعلق تو کچھ بتائیے ،کیا اسی کو آبِ حیات کہتے ھیں؟ اور اس پانی کا چشمہ پھوٹتا کہاں سے ھے ؟؟؟
مرشــد نے گہری نظر سے مرید کی طرف دیکھا اور سوچ میں ڈوب گیا،جب کافی دیر گزر گئ تو مرید کو یوں لگا جیسے اس نے اپنے مرشد کو ناراض کر دیا ھے،، وہ پھر ڈرتے ڈرتے بولا، حضرت جی اگر میرے سوال سے آپ کو کوفت ھوئی ھے تو میں معافی کا طلبگار ھوں !
ایک لمبی ' "ھـُـــــــوں" کے بعد مرشد نے نرمی سے بولا، نہیں میں ناراض تو نہیں ھوا مگر فکرمند ضرور ھوں...... ،،میں نے جب یہ سوال اپنے مرشد سے کیا تھا تو ھمارے درمیان 12 سال کی طویل جدائی پڑ گئ تھی ،،میں سوچ یہ رھا تھا کہ پتہ نہیں میں تمہاری یہ طویل جدائی برداشت کر سکوں گا بھی یا نہیں،، اس دوران اگر میری اجل آگئ تو کہیں تمہاری محنت ضائع نہ ھو جائے،، بیٹا یہ عرقِ حیات یا آبِ حیات ،، یہ الفاط میں نہیں سمجھایا جا سکتا،، سمجھاؤ تو سمجھ نہیں آتا ! اس لئے میرا مرشد تو آب حیات کے چشمے کےکنارے کھڑا کر کے ،اس میں انگلی ڈبو کر دکھایا کرتا تھا کہ یہ ھے عرقِ حیات !! میں نے یہ سوال اپنے مرشد سے ان کی جوانی میں پوچھ لیا تھا !!
تم نے بہت دیر کر دی ھے،، خیر اللہ بہتر کرے گا،، میں تمہیں ایک پودا دکھاتا ھوں ،، اس پودے کے پھول کا عرق تم نے ایک چھوٹی شیشی میں بھرنا ھے اور جب یہ شیشی بھر جائے تب میرے پاس واپس آنا ھے،، یہ عرق ھی ھماری آنکھوں میں عرقِ حیات کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرے گا !!یاد رکھنا ایک پھول سے صرف ایک قطرہ رس نکلتا ھے ، اور اگر شیشی فوراً بند نہ کرو تو فوراً اڑ بھی جاتا ھے،، اور یہ پودا جنگل میں کہیں کہیں ملتا ھے ! اس کے بعد مرشد نے ایک درمیانے سائز کی شیشی اپنے مرید کو پکڑائی اور اسے ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ رخصت کر دیا ! مرید بہت پرجوش تھا،، آبِ حیات کا معمہ بس حل ھونے کو تھا ، اور اسے آبِ حیات کو دیکھنے اور چھونے کا موقع ملے گا،، مگر ایک تو اس پودے کو ڈھونڈنا ایک جوکھم تھا تو ایک پودے کے ساتھ ایک پھول اور ایک پھول میں ایک قطرہ !!
الغرض اسے بارہ سال لگ گئے بوتل بھرنے میں ،، جس دن اس کی بوتل بھری وہ دن اس کے لئے ایک نئ زندگی کی نوید تھا،، ایک طرف وہ پھولے نہیں سما رھا تھا تو دوسری طرف اسے بار بار یہ خیال ستا رھا تھا کہ اگر اس دوران مرشد اللہ کو پیارے ھوگئے تو اس کی محنت ضائع چلی جائے گی کیونکہ آبِ حیات چشمہ تو صرف مرشد کو ھی پتہ تھا !! وہ خیالات میں غلطاں و پیچاں کبھی چلتا تو کبھی دوڑتا،، اپنے مرشد کے ٹھکانے کی طرف رواں دواں تھا،، مرشد کے ڈیرے پہ نظر پڑنا تھا کہ وہ بیتاب ھو کر دور سے ھی چلایا ،، میرے مرشد ،، اے میرے مرشد، دیکھ میں اپنی تپسیا میں کامیاب رھا،،میں بوتل بھر لایا ھوں ،، اس کی آواز پر مرشد اپنے کٹھیا سے بار نکلا ،، بارہ سالوں نے اس کی کمر دھری کر دی تھی مگر وہ بھی مرید کی کامیابی پر خوش نظر آتا تھا !!
اپنے مرشد پر نظر پڑنا تھا کہ مرید بے اختیار دوڑ پڑا اور یہی بے احتیاطی اسے مہنگی پڑی، ٹیڑھے میڑھے رستے پر قدم کا سٹکنا تھا کہ مرید لڑکھڑایا اور عرق سے بھری شیشی اس کے ھاتھ سے چھوٹ کر ٹھاہ سے پتھر پر لگی اور چورا چورا ھو گئ،، عرق کے کچھ چھینٹے مرشد کے پاؤں پر پڑے باقی کو جھٹ زمین نگل گئ،، بے اختیار مرید کی چیخ نکل گئ ،،میرے مرشد میں لٹ گیا میں برباد ھو گیا میری محنت ضائع ھو گئ ،،میرے بارہ سال کی مشقت مٹی بن گئ،، میرے مرشد میں تباہ ھو گیا،، مرشد اپنے مرید کو چھوڑ کر اندر گیا اور ایک اور چھوٹی سی شیشی لایا جس میں اس نے روتے سسکتے مرید کے آنسو بھرنا شروع کر دیئے ،، اور وہ شیشی بھر لی !!
اب مرید رو رھا تھا تو مرشد ھنس رھا تھا،، میرے مرشد میری زندگی برباد ھو گئ اور آپ مسکرا رھے ھیں ؟ مرید نے تعجب سے پوچھا !! مرشد اسے اندر لے گیا اور بکری کے دودھ کا پیالہ پینے کو دیا ،، پھر اس نے اس چھوٹی شیشی کو کھولا جس میں مرید کے آنسو بھرے ھوئے تھے، اور اپنی انگلی کو ان سے گیلا کر کے کہا کہ یہ ھے " عرقِِ حیات " یا " آبِ حیات " یا مقصدِ حیات !!
اور پھر آنسوؤں میں ڈبڈباتی اس کی آنکھوں کو چھو کر کہا یہ ھیں آبِ حیات کے چشمے !!
یاد رکھو ! اللہ نے انسان کو ان آنسوؤں کے لئے پیدا کیا ھے ،، ان میں ھی زندگی چھپی ھوئی ھے،، کچھ اس کی محبت میں زارو قطار روتے ھیں جیسے انبیاء ،، اور کچھ اپنے عملوں کے بھرے مٹکے جب اپنی ذرا سی غلطی سےگراتے اور انہیں ٹوٹتے اور اپنی محنتیں ضائع ھوتے دیکھتے ھیں تو تیری طرح بلبلاتے ھیں ،، جس طرح پانی نکلنے اور نکالنے کے مختلف طریقے ھیں اسی طرح انسانوں میں بھی ان کی طبائع کے تحت ان آنسوؤں کا سامان کیا گیا ھے،، یاد رکھو آسمان پر بھرنے والے بہت سارے ھیں مگر شیشی کسی کی نہیں ٹوتتی ،، آسمان والوں کے مٹکے ھر دم بھرے رھتے ھیں،،وھاں مٹکے ٹوٹنے کے اسباب نہیں رکھے گئے ، ان کے رونے میں تسبیح ھے،، پچھتاوہ نہیں ھے ! ھمیں اسی مقصد سے بنایا گیا ھے،پھر اس دنیا کے ٹیڑھے میڑھے رستوں پر ھاتھ میں تقوے کی بوتل دے کر دوڑایا جاتا ھے ،، اور جب ذرا سی بے احتیاطی سے تقوے کی وہ سالوں کی محنت کسی گناہ میں ڈوب جاتی ھے اور ھم پچھتاتے ھیں اور زار و قطار روتے ھیں تو اللہ فرشتوں کو اسی طرح ھمارے آنسو سمیٹنے پر لگا دیتا ھے جس طرح آج میں نے تیرے آنسو شیشی میں جمع کئے ھیں !!
یہ وہ پانی ھے جس سے جہنم کی آگ بھی ڈرتی ھے،، اللہ کے رسول ﷺ نے حشر کا نقشہ کھینچا ھے کہ جہنم کی آگ فرشتوں کے قابو میں نہیں آ رھی ھوگی،، اور میدانِ حشر میں باغیوں کی طرف پھنکاریں مارتی ھوئی لپکے گی،، فرشتے اپنی بے بسی کا اظہار کریں گے تو اللہ پاک جبرائیل سے فرمائیں گے کہ وہ پانی لاؤ ،، اور پھر جبرائیل اس پانی کے چھنٹے مارتے جائیں گے اور آگ پیچھے سمٹتی جائے گی یہاں تک کہ اپنی حد میں چلی جائے گی،، صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ وہ کونسا پانی ھو گا؟ آپ نے فرمایا اللہ کے شوق میں اللہ کے خوف سے رونے والوں کے آنسو ھوں گے جو اللہ نے آگ پر حرام کر رکھے ھیں!! یہی وہ رونا ھے جو امیر خسرو روتے ھیں کہ !!

بہــــت ھـــــــی کٹھــــــن ڈگـــــــر پنگھـٹ کی 
کیسے بھــــر لاؤں میـں جھـــٹ پٹ مٹــــــــکی ؟

یہی وہ آبِ حیات ھے جس کی بشارت انسان کو دی گئ ھے کہ اس کے چشمے اس کی اپنی ذات کے اندر ھیں !!

اے تن تیـرا رب سَچے دا حـجـــــرہ ، پا اندر ول جھــاتی ھو
نہ کــــــر مِنـت خـــواج خضــر دی، تیرے اندر آبِ حیـاتی ھو !

اسی کی طرف میاں محمد بخش صاحب اشارہ کرتے ھیں

سب سیاں رَل پانی چلیاں تے کوئی کوئی مُڑسی بھر کے
جنہاں بھـریا ، بھــر سِر تے دھــریا، قدم رکھن جَـر جَـر کے !

یعنی تمام روحیں اصل میں ان سہیلیوں کی طرح ھیں جو کنوئیں سے آبِ حیات بھرنے جاتی ھیں،،مگر ان میں سے کوئی کوئی بھر کر واپس آئے گی بہت ساریوں کے گھڑے رستے میں ٹوٹ جاتے ھیں،، لیکن جو بھر کر سر پر رکھ لیتی ھیں ان کے قدم رکھنے کا انداز بتاتا ھے کہ ان کا گھڑا بھرا ھوا ھے ! وہ بہت ٹھہر ٹھہر کر قدم رکھتی ھیں ! یہ مضمون اللہ پاک نے سورہ الفرقان میں اپنے بندوں کی تعریف کرتے ھوئے بیان کیا ھے،،
 "و عباد الرحمن الذین یمشون علی الارضِ ھوناً ،،،، رحمان کے بعد بندے زمین پر بہت تھم تھم کرقدم رکھتے ھیں"
 یعنی پروقار چال چلتے ھیں،، ان کی چال بتاتی ھے کہ گھڑا بھرا ھوا ھے ! میاں صاحب دوسری جگہ فرماتے ھیں !
 لوئے لوئے بھر لے کُڑیئے جے تدھ بھانڈا بھرنا ! شام پئــی بِن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا !!
 یہ بھرے گھڑے تڑوانے والوں کا ذکر اللہ پاک نے قرآن حکیم بھی بار بار کیا ھے،،
 ائے ایمان والوں تمہارے ازواج اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ھیں،،ان سے خبردار رھو !( التغابن ) میاں صاحب فرماتے ھیں
اکھیوں انَۜا تے تِلکَن رستہ کیوں کر رھے سنبھالا ؟
دھـــکے دیــون والے بُہــتے تُـــو ھتھ پکــڑن والا !

اے اللہ آنکھوں سے بھی میں اندھا ھوں،ان مادی آنکھوں سے تو نظر نہیں آتا، اور رستہ بھی پھسلن والا ھے،، دوسری جانب ھر بندہ اس پھسلن رستے پر سہارا دینے کی بجائے دھکے دینے والا ھے ،،جب کہ صرف تیری ذات ھاتھ پکڑنے والی ھے !!
ھم کو بھی وضو کر لینے دو،ھم نے بھی زیارت کرنی ھے
کچھ لـوگ ان بہتـی آنکھـوں کو ولیـوں کا ٹھکانہ کہتے ھیں ...............!
(منقول)
*ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہ کہیں سے گزر رھی تھیں ۔
دیکھا کہ ایک شخص لوگوں کو جنت کے بارے میں ترغیب دلا رھا تھا ،
آپ رک گئیں اور فرمایا ؛
" میاں خدا سے ڈرو ، 
تم لوگوں کو کب تک اللہ کی محبت سے غافل رکھو گے ۔
تمہیں چاھیے کہ پہلے اپنے خدا کی محبت کی تعلیم دو ،
پھر جنت کا شوق دلاؤ "
اس شخص نے جب آپکی بات سنی تو ناک چڑھا کے تنک کے بولا ؛
" او دیوانی جا اپنا رستہ لے "
حضرت رابعہ بصریؒ کہنے لگیں کہ ؛
" میں تو دیوانی نہیں ھوں ۔
ھاں تو نادان ضرور ھے کہ راز کی بات نہ سمجھ سکا ۔
ارے جنت تو قید خانہ ھے ،
مصیبت کا گھر ھے کہ اگر وھاں اللّٰہ کا قرب و دیدار میسر نہ ھو ،
کیا تو نے آدم علیہ السلام کا حال نہیں سنا کہ جب تک ان پر خدا کا سایہ رھا کیسے آرام سے جنت میں میوہ خوری کرتے رھے 
اور جب خطا کر بیٹھے
اور شجر ممنوعہ کا پھل کھا لیا تو خدا کی شفقت کا سایہ سر سے اٹھ گیا ،
تو وھی جنت آدم علیہ السلام کے لیے مصیبت کا گھر اور قید خانہ بن کر رہ گئی "
پھر کہا ؛
" کیا تجھےابراھیم خلیل اللہ کا حال معلوم نہیں کہ جب وہ محبت الہی پر پورے اترے اور آگ میں ڈالے گئے تو وہ آگ ان کے لیے جنت و عافیت بن گئی ۔
پس ! 
پہلے جنت کے مالک کی محبت پیدا کرو ، 
پھر جنت میں جانے کی آرزو کرو ،
ایسی جنت میں جا کر کیا کرو گے کہ جہاں تم پر اللہ کا سایہ نہ ھو ، 
اگرجنت کسی مشتاق کو مل جائے مگر وھاں دیدار الہی نصیب نہ ھو تو ایسی جنت کس کام کی
اور 
اگرعاشقوں کو دوزخ ملے اور وھاں دیدار الہی نصیب ھو تو ایسی دوزخ اس جنت سے لاکھ درجے بہتر ھے ۔
اسے شوق سے لے لو ، 
دنیا و مافیہا میں اور اس ساری کائنات میں کوئی کام کی چیز ھے تو وہ عشق الہی ھے "
انسان اللہ کا گھر ھے 
اور 
وہ انسان کے دل میں ھے 
اور 
انسانی روح اس دنیا میں اللہ کی ملاقات اس کی معرفت و پہچان حاصل کرنے آئی ھے نا کہ تجارت و خود غرضی کہ لیے!
*تو اگر خود ہے خدایا میری شاہ رگ  کے قریب
پھر یہ شانوں پہ فرشتوں کا تکلف کیسا

*لفظوں کے زحم جھیلنے کے بعد بھولنے کا فن یا تو پاگل کو آتا ہے یا کامل کو

*روح کی حیثیت:-
حیات نام ہے حس حرکت، دیکھنا، سننا، بولنا، قوی ظاہری و باطنی کا موجود ہونا. روح دنیا میں بدن کو زندگی بخشتا ہے. دنیا میں مادی چیزوں کو سنانے میں مادی آلات کا محتاج ہے نہ کہ اپنی حیات میں مادی بدن کا محتاج ہے، بلکہ روح بدن کو حیات بخشتا ہے. برزخ میں جا کر روح مادی دنیا کو اپنی آواز نہیں سنا سکتا. اسی لۓ مادی آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں، مادی کان اسکی بات نہیں سن سکتے حالانکہ وہ خود بولتا ہے، سنتا ہے، اس کے سارے اعضاء ذاتی ہیں جیسا کہ ثابت ہو چکا ہے کہ روح اپنے بدن کی شکل پر ہوتا ہے. روح خود جسم لطیف، اس کے کان لطیف، اسکی آواز لطیف، اس کو تمام لطیف چیزیں دیکھ لیتی ہی، اس کی آواز سن لیتی ہیں جیسا کہ ملائکہ قلوب انبیاء، قلوب اولیاء، لطیف چیزوں کو دیکھنے یا سننے سنانے میں کسی غیر جسم کے آلات کا محتاج نہیں ہوتا کہ برزخ میں اس کے لۓ جسم مثالی تسلیم کیا جاۓ. اگر لطیف چیزوں کو دیکھنے یا سننے سنانے میں جسم مثالی کا محتاج مانا جاۓ تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ روح حیات بخش نہیں بلکہ روح کو جسم مثالی حیات بخشتا ہے اور روح کے کوئی ذاتی آلات نہیں وہ ایک پتھر ہے (العیاذ بااللہ) جسم مثالی کا تسلیم کرنا خلاف قرآن، خلاف حدیث اور خلاف سلف صالحین ہے اور جو شخص جسم مثالی کا قائل ہوا اس نے سخت ٹھوکر کھائی ہے. اللہ اس کو ہدایت دے.
 (حضرت مولانا اللہ یار خان رحمتہ اللہ علیہ)

**دل اور تقوی*

اللہ رب العزت قرآن میں معزز اور اپنے دوستوں کی نشانی  بیان کرتے ہیں۔ 
یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَاءِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (13) الحجرات
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔

اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ (62) یونس
خبردار! بے شک جو اللہ کے دوست ہیں نہ ان پر ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ (63)
جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔
لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ  لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ  ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (64)
ان کے لیے دنیا کی زندگی اور آخرت میں خوشخبری ہے، اللہ کی باتوں میں تبدیلی نہیں ہوتی، یہی بڑی کامیابی ہے

اور تقوی کے بارے میں حضور اقدس ﷺ نے سینے کی طرف اشارہ کرکے تین بار فرمایا

تقوی ھاھنا
یعنی تقوی کی جگہ یہاں ہے
*شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں:
اے بیٹے!
اگر سینے کی فراخی اور دل کی خوشی چاہتا ہے تو لوگ جو کچھ تجھ کو کہیں اس کو سن اور ان کی گفتگو کی طرف متوجہ نہ ہو۔ کیا تو نہیں جانتا کہ یہ دنیادار لوگ جب اپنے خالق ہی سے راضی نہیں تجھ سے کیوں کر راضی ہونگے۔

تجھ کو اپنے پروردگار کی خدمت میں لگا رہنا چاہیۓ تجھ کو اس سے کیا غرض کہ مخلوق تجھ کو پسند کرتی ہے یا ناپسند

*خُود سے خُدا تک #

محبوبِ حقیقی کو کوئی تلاش نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اُسے اپنی تلاش نہ دے ۔۔۔
سو اگر تمہیں اُس کی تلاش عطا ہوئی ہے تو جان لو کہ اُسے بھی تمہاری تلاش ہے اہل عشق کی محبت خام کو بھی خاص بنا دیتی ہے ۔۔۔
جب دِل میں محبت کی آگ جلنے لگے تو پھر اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔ کیونکہ تالی ایک ہاتھ نہیں بجتی ۔۔۔
اگر کوئی پیاسا پانی پانی پُکارتا ہے تو پانی بھی صدا دیتا ہے کہ کہاں ہے میرا پینے والا۔؟ 
صرف پیاسے کو پانی کی پیاس نہیں ہوتی بلکہ پانی کو بھی پیاسے کی پیاس ہوتی ہے۔ ہماری روح میں اُس ذاتِ پاک کی پیاس اُسی ذات کی کشش کا کمال ہے ۔۔۔
وہ خود ہمیں اپنی جانب کھینچتا ہے۔ کیونکہ ہم اُس کے ہیں اور وہ ہمارا ہے۔۔۔۔

حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللّٰہ علیہ ۔۔۔
*دعا :بوسیلہ اسمِ اعظم
***********
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا اور ایک شخص وہاں نماز پڑھ رہا تھا اس نے اپنی دعا میں عرض کیا اے اللہ! میں تجھ سے اپنی حاجت مانگتا ہوں بوسیلہ اسکے کہ ساری حمدوستائش تیرے ہی لئے سزاوار ہے کوئی معبود نہیں تیرے سوا تو نہایت بڑا مہربان اور بڑا محسن ہے زمین اور آسمان پیدا کرنے والا ہے میں تجھ سے مانگتا ہوں اے ذولجلال و الااکرام ! اے حی وقیوم ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس اللہ کے بندے نے اللہ کے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا کی ہے اگر اس وسیلہ سے اللہ سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرماتا ہے اور جب اس وسیلہ سے مانگا جائے تو عطا فرماتے ہیں۔ (سنن ابی داود ، ترمذی)
ماخوذ از : سنت حبیب صلی اللہ علیہ وسلم
تالیف :اختر حسین بہاولپوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب: نور محمد

اسم اعظم :
اللهُمَّ اِنّی اَسئَلُکَ بِاَنَّ لَکَ الحَمدُ لا اِلهَ اِلّا اَنتَ المَنّانُ بَدیعُ السَّمواتِ وَ الاَرضِ یاذوالجلال والاکرام
وَإِلَـٰهُكُمۡ إِلَـٰهٌ۬ وَٲحِدٌ۬*ۖ لَّآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلرَّحۡمَـٰنُ ٱلرَّحِيمُ 
الم (1) اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ
*بانسری کا راز اور معرفت ذات کا فلسفہ : 
مسنو ی مولانا روم میں مولانا رومی نے روایات کے ساتھ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت محمّدصلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے بہت زیادہ تنگ آگے جو صرف دنیاوی معملات اور صفات کے مسائل لے کر ان کے پاس چلے آرہے تھے وہ سوچ رھے تھے کے ہر کوئی میری ظاہری صفات کے پیچھے چلا آرہا ہے کسی کو نماز کے بارے میں پوچھنا ہے کسی کو جنت دوزخ کی جستجو ہے کوئی بھی ایسا نہیں ہے ان میں جس کو میری ذات کی معرفت کی طلب ہو کوئی تو ایسا ہو جواس رازتک پہنچنے کی جستجو کرے جو میرےسینے میں موجود ہے میرے باطن میں جو علم ہے اس کائنات کا راز ہے کوئی تو ہو جس کی اس راز کو پانے کی جستجو ہو ۔ رسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ یہی سوچ رھے تھے کہ اچانک سامنے سے مولاے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم   دار ہوے اور انہوں نے مسکرا کر یارسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یاسیدی میں آپ پرقربان جاؤں مجھے آپ کے سینے پر جو راز ہے جو آپ کے باطن کا علم ہے اس میں دلچسپی ہے مجھے آپ کی صفت اور ظاہر سے کوئی سر و کار نہیں ہے اس پر رسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  مسکرا ے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم  کو اپنے قریب لا کر ان کے کان میں سب که ڈالا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم  ان الفاظ کی تاب برداشت نا کر سکے اور ان پر وجد کی کیفیت طاری هوگی حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم  اس کیفیت میں وہاں سے نکلے اور سیدھا صحرا میں اس طرح سفر کرنے لگے جیسے ایک تیر کمان میں سے نکل کر سیدھا اپنی منزل کی طرف جاتا ہے چلتے چلتے ان کے سامنے ایک کنواں آیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم  اوندے طرح گر پڑے کہ ان کا سرپانی کےاندر چلاگیا اس حالت میں انہوں نے سارا راز اس کنواں کےپانی میں که ڈالا ۔ اس گفتگو کے دوران ان کے منہ مبارک سے تھوک یا لواب شریف گر پڑا ۔ اس کے بعد اس کنواں میں سرور کی کیفیت پیدا هو گی اس کنواں سے بعد میں کسی نے نال نکالا ایک دن ایک شخص اس نل سے پانی پی رہا تھا کہ اچانک اس کے ذھن میں ایک خیال آیا اور اس نے اس نل میں پھونک لگا دی تو اس سے انتہائی سریلی آواز پیدا ہوگی اس کے بعد بانسری کی ایجاد ہوئی ۔ مولانا رومی لکھتے ہیں کہ بانسری میں جب سانس پھونک دی جائے وہ اپنے اصل کو پہچان کر سرور کی کیفیت میں آجاتی ہے اور انسان جس کے اندر اتنا کمال اسرار اور رمو ذ بھرا ہوا وہ اپنے اصل کو پہچانتا ۔ یاد رکھو راز رسی اصل صرف صاحب اسرار کے سینے پر ہوتا ہے اللّه آپ سب کو اس راز تک پچانےکی توفیق دے۔الہی عزوجل آمین, - -
*ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﺍﻣﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺭﺍﻧﯽ ﺗﺎﺭﮦ
ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺣﻀﺮﺕ
ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﺍﻣﯿﻦ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ
ﺍﮮ ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﮐﺘﻨﯽ ﮨﮯ؟
ﺗﻮ ﺟﺒﺮﺋﯿﻞ ﺍﻣﯿﻦ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﺣﻀﻮﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ
ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺎﮞ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﭼﻮﺗﮭﮯ ﺣﺠﺎﺏ ﻣﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺭﺍﻧﯽ ﺗﺎﺭﮦ ﺳﺘﺮ ﮨﺰﺍﺭ ﺑﺮﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭼﻤﮑﺘﺎ
ﺗﮭﺎ، ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﭼﻤﮑﺘﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﮨﮯ،
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ
ﻭَﻋِﺰَّۃِ ﺭَﺑﯽِّ ﺍَﻧَﺎ ﺫٰﻟِﮏَ ﺍﻟْﮑُﻮْﮐَﺐْ ،
ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ !
ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﻭﮦ ﻧﻮﺭﺍﻧﯽ ﺗﺎﺭﮦ ﮨﻮﮞ۔ )ﺭﻭﺡ ﺍﻟﺒﯿﺎﻥ ﺹ ۹۷۴
ﺝ ۱(
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﯽ ﮨﺮ
ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻧﻮﺭ ﭘﺎﮎ
ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﺗﮭﺎ ﻧﮧ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺸﺮ ﻧﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﺗﮭﯽ ﻧﮧ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﻭﺭ ﺷﮯ۔
) ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﻪ () ﺳﺒﺤﺎﻥ ﺍﻟﻠﻪ () ﺳﺒﺤﺎﻥ
ﺍﻟﻠﻪ (
ﺍَﻟﻠّﮭُﻢَّ ﺻَﻞِّ ﻋَﻠٰﯽ ﻣُﺤَﻤَّﺪٍ ﻭَّ ﻋَﻠٰﯽ ﺍٰﻝِ ﻣُﺤَﻤَّﺪٍ ﻭَ
ﺑَﺎﺭِﮎْ ﻭَﺳَﻠِّﻢ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﻭﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺑﺮﮐﺎﺗﮧ ﺻﺒﺢ ﺑﺨﯿﺮ
ﺟﻤﻌﮧ ﻣﺒﺎﺭﮎ
ﺟﺰﺍﻙ ﺍﻟﻠﻪ ﺧﻴﺮﺍ ﻛﺜﻴﺮﺍ ﻓﻲ ﺍﻟﺪﻧﻴﺎ ﻭﺍﻵﺧﺮﻩ

*خواجہ معین الدین چشتی رح سے کسی نے پوچھا کہ آپ بھی اللہ کے ولی ہیں اور علی مولا ؑ بھی اللہ کے ولی ہیں آپ کی اور مولا علیؑ کی ولائیت میں کیا فرق ہے ؟
معین الدین چشتی نے سوال کرنے والے سے پوچھا تم کرتے کیا ہو وہ بولا میں ذمیندار ہوں کافی رقبے کا مالک ہوں اسی سوال کرنے والے کے ساتھ دوسرا آدمی بھی تھا اس سے پوچھا تم کیا کرتے ہو اس نے کہا اسی زمیندار کے زمین پر مزارع ہوں ہل چلاتا ہوں 
معین الدین چشتی نے کہا جو فرق زمیندار اور مزارع کے منصب میں ہے وہی فرق میری اور مولا علیؑ کی ولائیت میں ہے علیؑ ولائیت کی زمین کے مالک ہیں اور ہم انکے مزارع -  ہمارا کام زمینِ ولائیت میں ہل چلانا ہے ولائیت کی فصل کے مالک مولا علی ؑ ہیں جس کو چاہیں خیرات عطا کر دیں اسی لیئے سب اولیاء کہتے ہیں کہ ہمیں ولائیت علی ؑ کی بارگاہ سے ملی اور اسی لیئے مولا علیؑ کو سید الاولیاء کہا جاتا ہے

تذکرہ محبوب
ص 221
*راہ عشق۔تصوف ۔
حضرت علی بازار سے گزر رہے تھے ساتھ آپ کے حضرت امام حسن  تھے راستے میں ایک مانگتے نے سوال کر دیا یا علی میں کچھ مانگو تو دو گئے کیا آپ  نے کھا مانگ کر دیکھ مانگتے نے کھا یا علی مجھے حسن دے دو آپ سوچ میں پڑ گئے کے آج مانگتے نے کونسا سوال کر دیا ہے کھا اے مانگتے ذرا یہاں روک میں زہرا سے پوچھ کر آتا  ھو کیوں کے حسن زہرا رضی اللّه کا بھی بیٹا ہے آپ گھر گئے اور جا کر کہا زہرا آج ایک مانگتے نے مجھے سے حسن مانگا ہے کہا اے میرے سر کے تاج کوئی بات نہیں حسن آپ سے مانگا ہے حسین میرے طرف سے دے او حضرت علی نے دونوں شہزادوں کے بازوں پکڑے اور لے کر بازار میں مانگتے کے پاس آ گئے کہا  اے مانگتے تو نے تو حسن مانگا ہے لے حسین بھی ساتھ لے جا مانگتا قدموں میں گر کر کہتا ہے یا علی میں تو بس تیری کریمی دکھانا چاہتا تھا  مجھے معاف کر دے حسن حسین دونوں  تیرے ۔۔تو پھر میں کیوں نہ کہوں ہے نسل کریموں کی لجپال گھرانہ ہے ۔۔

*تازہ غزل

جواب کا سلسلہ تو ہے پر سوال چپ ہے
کشاکشِ زندگی میں اصلِ مجال چپ ہے

خدا کی بستی میں تیرگی کو فروغ دے کر
چراغ خوش ہورہا ہے, تیرہ خیال چپ ہے

فسونِ تہذیب و دامِ مذہب کی سلطنت میں
بہشتِ غیبی کی آس میں یرغمال چپ ہے

نگاہِ نطشے میں جرم ہے ضعفِ آدمیت
عناصرِ چست دائمی ہیں, نڈھال چپ ہے

اسی کے خاک اور خوں سے اونچے محل بنے ہیں
خدا کو جس سے عروج ہے وہ زوال چپ ہے

اگرچہ جنگل میں اس کی خوشبو سے رونقیں ہیں
وحوش کے نرغۂِ ستم میں غزال چپ ہے

شبوں میں سورج کی جانشینی روا ہے جس کو
حصارِ ظلمت میں قید تنہا ہلال چپ ہے

زمیں کے پستانوں میں غذا کی کمی نہیں ہے
شکم کو لیکن ہوا سے بھر کر نہال چپ ہے

قبیح صورت گری ہے شعرِ سخن وراں میں
شعور کی بے رخی عیاں ہے, جمال چپ ہے

قضا کئے جارہا ہے ہر فرد زندگانی
سماعتیں منتظر ہیں لیکن بلال چپ ہے

نقاشؔ علی
قابلِ غور بات۔۔۔۔
خلافتِ عثمانیہ کے دور میں ترکوں کا کہنا تھا کہ:
"مسجد میں نماز کے دوران اگر آپ کے پیچھے آپ کے بچے نہیں کھیل رہے ، تو آپ کے سامنے آپ کا روشن مستقبل ہرگز نہیں ہے-"
اور آج پھر سے ترکی کی مساجد میں یہ اعلان آویزاں کیا جانا شروع کردیا گیا ہے۔ مساجد میں بورڈ لگے ہوتے ہیں جن پر کچھ یوں سطریں رقم ہوتی ہیں:
"اگر نماز کے دوران آپ کو پیچھے سے بچوں کے کھیلنے کودنے کی آوازیں نہیں آتی تو آپ اپنے دین کے مستقبل کی فکر کریں"

اس کے بر خلاف ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بچوں کو مساجد سے دور رکھا جاۓ تاکہ ہم سکون سے نماز پڑھ سکیں۔۔
یاد رکھیے: 
آج کے بچے کل کے جوان ہوتے ہیں آگر آج مساجد میں بچے نہیں ہیں تو کل مساجد میں جوان نہیں ہونگے۔۔۔😊
                                    دیکھو اب اس میں بات صرف اور صرف غور کرنے کی ہے.  نہ کہ اس میں نقتہ چینی کرنے کی. .. اپنی انکھیں بند کر کے دل سے یہ فیصلہ کرنا کہ آیا کہ یہ غلط ہے یا پھر صحیح.      ؟؟
#teanertugrul
Like and Share our page https://www.facebook.com/FaizanEsafiya/jazakAllah ..

No comments:

Post a Comment