Sunday, June 28, 2020

FB Gems Sufiyana Pg2


*ایک مرتبہ ابو لہب کے بیٹے عتیبہ نے بارگاہِ نبوّت میں گستاخی کی یہاں تک کہ بدزبانی کرتے ہوئے حضور رحمۃٌ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم پر جھپٹ پڑا اور آپ کے مقدس پیراہن کو پھاڑ ڈالا۔ اس گستاخ کی بے ادبی سے آپ کے قلبِ نازک پر انتہائی رنج و صدمہ گزرا
 اورجوشِ غم میں آپ کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ نکلے:اللّٰھُمَّ سَلِّطْ عَلَیْہِ کَلْباً مِّنْ کِلَابِک َ اے اللہ! اپنے کتّوں میں سے کسی کتّے کواس پر مسلّط فرما دے۔چنانچہ جب ابولہب اور عتیبہ دونوں تجارت کے لئے ایک قافلہ کے ساتھ ملکِ شام گئے تو رات کے وقت مقام زرقا میں ایک راہب کے پاس ٹھہرے۔ راہب نے قافلے والوں کو بتایا کہ یہاں درندے بہت ہیں اس لئے تمام لوگ ذرا ہوشیار ہو کر سوئیں یہ سُن کر ابو لہب نے قافلے والوں سے کہا کہ اے لوگو!محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم) نے میرے بیٹے عتیبہ کے لئے ہلاکت کی دعا کی ہے۔ لہٰذا تم لوگ تمام تجارتی سامانوں کو اکٹھا کرکے اس کے اوپرعتیبہ کا بستر لگا دو اور سب لوگ اس کے ارد گرد سوجاؤ تاکہ میرا بیٹا درندوں کے حملے سے محفوظ رہے۔ چنانچہ قافلہ والوں نے عتیبہ کی حفاظت کا پورا پورا بندوبست کیا لیکن رات کے وقت اچانک ایک شیر آیا اور سب کو سونگھتے ہوئے کُود کر عتیبہ کے بستر پرپہنچا اور اس کے سر کو چبا ڈالا۔ لوگوں نے شیر کو تلاش کیا مگر کچھ بھی پتا نہیں چل سکا کہ یہ شیرکہاں سے آیا تھا اور کدھر چلا گیا۔ اللہ پاک حضورسیدِعالَم علیہ السلام کے گستاخوں کو نیست ونابود فرمائے۔آمین
*نت نئے نقش بناتے ہو، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرمِ تمنّا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مُردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہشِ دید جو کر بیٹھے سرِ طُور کوئی
طُور ہی برقِ تجلّی سے جلا دیتے ہو
نارِ نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہِ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ ِکنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بُجھا دیتے ہو
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخرِ ِکار شہ ِمصر بنا دیتے ہو
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں اَنا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
جوت سسّی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو مہینوال تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سرِ ِعرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو

( ناز خیالوی )
* '' ﻣﻮﺳﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺳﻼﻡ ﮐﯽ
ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ''

ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ
ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﺳﮯ ﺳﺮﮔﻮﺷﯽ ﮐﺮﺗﮯ
ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺍﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ! ﺗﯿﺮﺍ
ﭼﮩﺮﺍ ﮐﺪﮬﺮ ﮨﮯ؟
ﺷﻤﺎﻝ ﯾﺎ ﺟﻨﻮﺏ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ؟
ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﮧ
ﮐﺮﮐﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﺮ ﺳﮑﻮﮞ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻭﺣﯽ
ﺑﮭﯿﺠﯽ:
ﺍﮮ ﻣﻮﺳﯽٰ! ﺁﭖ ﺁ ﮒ ﺟﻼﺋﯿﮟ،
ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﭼﮑﺮ ﻟﮕﺎ
ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﮒ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﺲ
ﺟﺎﻧﺐ ﮨﮯ۔
ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺁﮒ
ﺭﻭﺷﻦ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ
ﭼﮑﺮ ﻟﮕﺎﯾﺎ، ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺁ ﮒ ﮐﯽ
ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﺮ ﭼﺎﺭ ﺳﻮ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﮨﮯ۔
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺩﺭﺑﺎﺭِ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﺮﺽ
ﮐﯿﺎ: ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﮒ ﮐﺎ ﺭﺥ
ﮨﺮ ﺟﺎﻧﺐ ﯾﮑﺴﺎﮞ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﺍﮮ
ﻣﻮﺳﯽٰ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﻭﯾﺴﯽ
ﮨﯽ ﮨﮯ۔
ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ
ﭘﻮﭼﮭﺎ ؛
ﺍﮮ ﭘﺮﻭﺩﮔﺎﺭ! ﺗﻮ ﺳﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﺎ
ﻧﮩﯿﮟ؟
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ
ﻭﺣﯽ ﻧﺎﺯﻝ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ:
ﺍﮮ ﻣﻮﺳﯽٰ! ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﺍ ﮨﻮﺍ
ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ
ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﻟﻮ، ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ
ﮐﮭﮍﮮ ﺭﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﯽ ﺁﻏﻮﺵ
ﻣﯿﮟ ﻣﺖ ﺟﺎﺅ۔
ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ
ﮐﯿﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﻧﮯ ﺍﻥ ﭘﺮ
ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﺍﻭﻧﮕﮫ ﮈﺍﻟﯽ، ﭘﯿﺎﻟﮧ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﮔﺮ ﮐﺮ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮩﮧ ﮔﯿﺎ۔
ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﭼﯿﺦ
ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮔﺌﮯ۔
ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﺍﮮ
ﻣﻮﺳﯽ ! ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ
ﺟﮭﭙﮏ ﺑﮭﯽ ﺳﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﺗﻮ ﯾﮧ
ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﮬﮍﺍﻡ ﺳﮯ ﮔﺮ
ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﯿﺮﺍ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ
ﮔﺮ ﭘﮍﺍ۔ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ
ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍِﺷﺎﺭﮦ
ﮨﮯ۔۔
"۔ﯾﻘﯿﻨﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ
ﺁﺳﻤﺎﻧﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﻮ ﺗﮭﺎﻣﮯ
ﮨﻮﺋﮯ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭨﻞ ﻧﮧ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ
ﭘﮭﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻥ
ﮐﻮ ﺗﮭﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ، ﻭﮦ
ﺣﻠﯿﻢ ﻭ ﻏﻔﻮﺭ ﮨﮯ۔ 

(ﻓﺎﻃﺮ: 41 )

ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ! ﺗﻮ ﻧﮯ
ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ
ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮍﺗﯽ؟
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ
ﮐﯽ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮨﮯ
ﺗﺎﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﭽﺎﻧﯿﮟ، ﻣﺠﮫ
ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺮﺍﺩﯾﮟ ﻣﺎﻧﮕﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻣﺮﺍﺩﯾﮟ ﭘﻮﺭﯼ
ﮐﺮﻭﮞ،ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮐﮯ
ﺑﻌﺪ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﻭ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﯽ
ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺪﻣﺖ
ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﮯ
ﻟﯿﮯ ﻣﻐﻔﺮﺕ ﻭ ﺑﺨﺸﺶ ﮐﺎ
ﭘﺮﻭﺍﻧﮧ ﺟﺎﺭﯼ ﮐﺮﻭﮞ۔
ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ
ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ! ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ
ﺍﯾﺴﯽ ﭼﯿﺰ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ
ﺗﯿﺮﯼ ﮨﯽ ﺟﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﯽ
ﮨﮯ؟
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ﮨﺎﮞ
ﻣﻮﻣﻦ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ
ﺧﺎﻟﺺ ﮨﮯ۔
ﻣﻮﺳﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﮮ ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ؟
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻣﻮﺳﯽ ﻋﻠﯿﮧ
ﺍﻟﺴﻼﻡ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:ﺟﺐ ﻣﻮﻣﻦ
ﺑﻨﺪﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﻮﻟﺘﺎ ﺗﻮ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﻣﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﺳﮯﻟﺒﺮﯾﺰ
ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻈﻤﺖ ﺍﺱ
ﭘﺮ ﻣﺤﯿﻂ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ
ﺟﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ
ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ -

ﮐﺘﺎﺏ= ﺳﻨﮩﺮﮮ ﺍﻭﺭﺍﻕ
ﺻﻔﺤﮧ ﻧﻤﺒﺮ = 269

No comments:

Post a Comment